لفظِ محبت کا معنیٰ کیا ہے؟

لفظِ محبت کا معنیٰ کیا ہے؟ جمعۃ المبارک 24 ربیع الاول 1444ھ بمطابق 21 اکتوبر 2022

وَاَلۡقَيۡتُ عَلَيۡكَ مَحَـبَّةً مِّنِّىۡ۔

اور میں نے تجھ پر اپنی جناب سے (خاص) محبت کا پرتَو ڈال دیا ہے.

(القرآن، سورۃ طٰہٰ 20، آیت نمبر 39)

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

(علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!

(علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)

محبت کا لغوی معنیٰ:

إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا،

محبت کے معنی یہ ہے کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا اور اس کو چاہنا۔ (مفردات القرآن، امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

کچھ اہل لغت کے نزدیک لفظِ محبت “حبّ” سے ہے اور “حب” صاف ستھری دوستی کا نام ہے۔ کیونکہ اہل عرب جب دانتوں کی صفائی اور چمک کا بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں “حَبَّبَ الْاَسْنَانَ” (کہ فلاں شخص نے دانتوں کو صاف اور چمکدار بنا لیا ہے)۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ بارش کے بعد جو پانی کے اوپر بلبلے ابھرتے ہیں انہیں حَبَاب المَاء کہتے ہیں اور اس بنا پر محبت کرنے والے کے دل میں محبوب سے ملنے کی خواہش میں جو تڑپ پیدا ہوتی ہے اور جو جوش اور جذبہ ابھرتا ہے اسے محبت کہتے ہیں۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي صَدْرِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الْمِرْجَلِ مِنْ الْبُكَاءِ قَالَ عَبْد اللَّهِ لَمْ يَقُلْ مِنْ الْبُكَاءِ إِلَّا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ

ترجمہ:

حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کو دیکھا کہ کثرت گریہ وزاری کی وجہ سے آپ کے سینہ مبارک سے ایسی آوازیں آرہی تھی جیسی ہنڈیا کے ابلنے کی ہوتی ہے۔

(مسند احمد، حدیث نمبر: 15724)

کچھ اہلِ لغت کے نزدیک لفظِ محبت الحَبُّ وَالْحَبَّۃُ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دانہ یا بیج۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

جیسے قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی۔

بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت اگاتا ہے۔)

تو محبت گویا بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اب بیج کے لفظ پر غور کرتے جائیں، محبت کے اسرار و رموز کھلتے جائیں گے۔

1- بیج جس درخت کا ہوتا ہے اس درخت کی خصوصیات ساری اس بیج میں پائی جاتی ہیں۔ جیسے بچہ کی پیدائش ایک پانی کے قطرے سے ہوتی اس ایک پانی کے قطرے میں وہ ساری خصوصیات موجود ہوتی جو اسے مکمل انسان بناتی ہیں۔

تو محبت چونکہ بیج کی طرح ہوتی ہے تو معنیٰ یہ بنا کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس محبوب کی خصوصیات کی جھلک، اس کی صفات کا عکس، اور اس کے عادات و اطوار کا نچوڑ اس محبت کے بیج میں موجود ہوتا ہے۔ تو محبت کے بیج میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ یہ محبوب کی صفات اور خصوصیات کا عکس اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے، تو محبت کا بیج جیسے جیسے پرورش پاتا ہے تو نتیجتاً محبت کرنے والے کی اپنی ساری خصوصیات کا رنگ آہستہ آہستہ اترتا جاتا ہے اور محبوب کی صفات کا رنگ چڑھتا جاتا ہے۔

حضرت جنید بغدادی رح سے کسی نے پوچھا کہ محبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا محب (محبت کرنے والے) میں محبوب کی صفات کا آجانا، یہ محبت ہے۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

تو اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو، مگر ان کے احکام اور تعلیمات کا رنگ اور جھلک اس کی زندگی میں نظر نہ آتی ہو تو یہ محبت کا صرف دعویٰ ہی ہے حقیقی محبت نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام و تعلیمات تو سراپا شفقت و رحمت ہوں اور محبت کا دعویدار دل میں کسی کے لیے حسد، بغض، کینہ، اور عداوت رکھتا ہو تو مطلب اس نے صرف محبت کا دعویٰ ہی کیا ہے محبت نہیں کی۔ کیونکہ اگر محبت کامل ہوتی تو محبوب کی صفات کو بھی اپنا لیتا۔

جن کے اوصاف ہیں خدا والے

ہیں وہی لوگ مصطفیٰ والے

جن کے کردار خود گواہی دیں

ایسے ہوتے ہیں مصطفیٰ والے

(جنید حسن)

2- بیج کو پرورش پانے کے لیے ایک خاص طرح کی زمین، آب و ہوا، موسم اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح محبت کے بیج کو بھی پروان چڑھانے کے لیے ایک خاص ماحول کی، اور ایک خاص طرح کی آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور محبت کے بیج کو پروان چڑھانے کے لیے جو خاص ماحول چاہیے وہ ہے اہلِ محبت کی صحبت اور سنگت۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اور صحبت میں بیٹھنا جو محبوب کا ذکر کرتے رہتے ہیں جن کے صبح و شام محبوب کی یاد میں گزرتے ہیں۔

3- بیج کو پرورش پانے کے لیے زمین کے اندر رکھا جاتا ہے، اسی طرح محبت کا بیج جس زمین میں رکھا جاتا ہے وہ بندۂِ مومن کا دل ہے۔

4- ایک اور بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ اگر زمین میں پہلے سے جڑی بوٹیاں یا خاردار جھاڑیاں موجود ہوں تو بیج کی نشوونما نہیں ہو پاتی۔ تو محبت کے بیج کو پروان چڑھانے کے لیے یہ ضروری کہ محبوب کے ہر غیر کی محبت سے دل کو پاک کر لیا جائے۔ دنیا کی محبت، نفس کی خواہشات، گناہوں کی لذت، حرص و ہوس، مال کی محبت الغرض ہر وہ چیز جو محبوب کی یاد سے غافل کر دے وہ غیر ہے اور جڑی بوٹیوں کی طرح ہے جن سے اس دل کی زمین کو پاک کرنا ہے تاکہ اس میں محبت کا بیج نشوونما پا کر ایک تناور درخت بن کر نمودار ہو سکے۔

حضرت شبلی رح فرماتے ہیں کہ محبت دل میں بسی ہوئی آگ کی طرح ہوتی ہے جو محبوب کی مراد کے علاوہ ہر چیز کو جلا دیتی ہے۔ (رسالہ قشیریہ)

حضرت شبلی رح فرماتے ہیں کہ محبت کو محبت اس لیے کہتے ہیں کہ یہ محبوب کے علاوہ دل سے ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (رسالہ قشیریہ)

اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے

جو دل سے ہر اک غیر کی چاہت کو مٹا دے

بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشہ

مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے

پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اداسی

ھرذوقِ طلب شوقِ تمنا ہی مٹا دے

(ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی)

پیغام یہ ہے کہ یہ محبت کا بیج چھوٹی عمر میں بچوں کے دلوں میں ڈال دیں اور انہیں بتائیں کہ حقیقی محبت کیا ہے اور ہمارا محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں ضروری ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت پروان چڑھتی جائے گی۔ اور یہ محبت ایک پھلدار اور خوشبودار درخت بن جائے گی جس سے پھر زمانے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ انشاء اللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *