لفظِ اولٰی اور محبت و اتباعِ رسولﷺ جمعۃ المبارک ، 17 ربیع الاول 1444ھ بمطابق 14 اکتوبر 2022ء
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر (شیخ سعدی)
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔
یہ نبیِ (مکرّم) ﷺ مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔
القرآن، سورۃ الاحزاب 33، آیت 6
اب سوال یہ ہے کہ جان سے بھی زیادہ حق رکھنے کا کیا مطلب ہے؟
حافظ عبد السلام رح اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ؛
اپنی جان سے بھی زیادہ حق رکھنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر آپ کا حکم مانا جائے۔ ایک طرف دنیا جہان کے کسی بھی شخص حتی کہ اپنی ذات کا تقاضا ہو، دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہو تو آپ کے فرمان کو ترجیح دی جائے۔ (تفسیر القرآن الکریم، حافظ عبد السلام رح)
انسان اگر کسی شخصیت کا حکم مانتا ہے تو اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں (1) محبت (2) اجر (3) خوف
یا تو وہ اس شخص سے شدید محبت کرتا ہے اس لیے اس کا ہر حکم مانتا ہے یا اسے کسی اجر کا لالچ ہوتا ہے جو اسے حکم ماننے پر ابھارتا ہے یا اسے سزا کا خوف ہوتا ہے کہ اگر حکم نہ مانا تو سزا ملے گی۔ مثال کے طور پر انسان اپنے والدین کا حکم مانتا ہے محبت، ادب، اور احترام کی وجہ سے، اولاد کی محبت میں والدین بچے کی ہر ممکن خواہش کو پورا کر دیتے ہیں، اساتذہ کی محبت اور ادب کی وجہ سے شاگرد ان کا ہر حکم مانتے ہیں۔ اسی طرح علاقے کی کسی معزز شخصیت کا لوگ حکم مانتے ہیں، اس کے احترام کی وجہ سے یا کسی اجر کے لالچ میں یا بعض اوقات ڈر کی وجہ سے۔ الغرض انسان مختلف وجوہات کی بنا پر کسی کا حکم مانتا ہے۔
یہ ساری محبتیں اور احترام اپنی جگہ، لیکن اگر ایک طرف دنیا جہان کے کسی بڑے سے بڑے محبوب شخص کی بات ہو، اور دوسری طرف محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان آ جائے، تو محبتِ مصطفیٰﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کی بات کو رد کر دیا جائے اور محمدِ مصطفیٰﷺ کے فرمان کو مان لیا جائے۔
دنیا کے ہر رشتے اور تعلق کا احترام اپنی جگہ، مگر خدا و مصطفیٰﷺ سے بڑھ کر کسی کا حکم نہیں ہے۔
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیٰ کے بعد (قتیل شفائی)
محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی سوچ پر، اس کی فکر پر، اس کے اعمال پر اور اس کے کردار پر اگر کسی کی حکمرانی ہو تو وہ یا خدا کے احکام کی ہو یا مصطفیٰﷺ کے فرمان کی ہو۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ ؟، قَالَ: وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟ قَالَ: لَا شَيْءَ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ، قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ.
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (ذوالخویصرہ یا ابوموسیٰ ) نے رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کچھ بھی نہیں، سوا اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تمہیں محبت ہے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تمہیں محبت ہے۔ انس ؓ نے کہا کہ میں بھی رسول اللہ ﷺ سے اور ابوبکر و عمر ؓ سے محبت رکھتا ہوں اور ان سے اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کرسکا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3688)
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔
تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے آپس کے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکامات اور فیصلوں کو بدل و جان قبول نہ کر لیں۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ محبت مصطفیٰﷺ کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کیا جائے، ہر حکم کو بدل و جان قبول کیا جائے۔ یہی اتباعِ رسول ہے اور یہی اطاعتِ مصطفیٰﷺ ہے۔
اور اس اطاعت سے ملتا کیا ہے؟ فرمایا:
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(آل عمران:۳۱)
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
اللہ رب العزت نے فرمایا؛ اے میرے بندے اگر تو مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر کیا کر؟ فرمایا پھر میرے مصطفیٰ ﷺ سے محبت کر اور صرف محبت نہ کر، “فاتبعونی”، ان کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کر دے، جب تو محبتِ مصطفیٰ کا چراغ لے کر، میرے مصطفیٰ ﷺ کا ہر حکم مانے گا تو میں کیا کروں گا؟ پھر میں تجھے بھی اپنا محبوب بنا لوں گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ محمدِ مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ وفا کرنی ہے۔
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبالؒ
محبت مصطفیٰﷺ کے تقاضے کیا کیا ہیں؟
1. سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ محبت مصطفیٰ ﷺ میں کمال حاصل کیا جائے۔ اور وہ کیسے؟ کہ دنیا کے ہر رشتے اور تعلق سے بڑھ کر، حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی جائے۔
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب!
2. آپ کے ہر حکم کو بدل و جان مانا جائے، ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کیا جائے۔
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
3. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رہبر و قائد مانا جائے۔ دنیا میں بڑے لوگ ہوں گے، ہوتے پھریں، ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہمارے مصطفیٰ ﷺ ہیں۔
سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 21
لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے.
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
4. محبت اور نفرت کا معیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانا جائے۔ کسی سے محبت کریں تو فقط خدا و مصطفیٰ کی خاطر، کسی نفرت کریں تو بھی فقط خدا و مصطفیٰ کی خاطر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ.
ترجمہ:
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہوجائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 16)
5. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم کی جائے۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
6. حضو ر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو اپنا مشن سمجھا جائے، حضور کے دین کو خود بھی سیکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی سکھائیں۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
حضورﷺ کے عشق و محبت کا نور لے کر جب ہر بندہ مومن نکلے گا تو ایک دفعہ پھر کفر کا اندھیرا چھٹ جائے گا اور میرے مصطفےٰ ﷺ کا دیا ہو نظام سارے عالم میں نافذ ہو جائے۔
قوتِ عشق سے ہرپست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے
علامہ اقبال